وزیر اعظم خواتین سے معافی کب مانگیں گے؟ ۔۔۔ از اسامہ خواجہ 11 269

وزیر اعظم خواتین سے معافی کب مانگیں گے؟ ۔۔۔ از اسامہ خواجہ

سماجی تشکیل میں پہلا اہم ترین کردار اُس سماج کے لیڈر ادا کرتے ہیں، جو نا صرف اپنی زبان اور عمل سے قوم کے نوجوانوں کی تربیت کرتے ہیں بلکہ سماج کے مختلف طبقات کو آپس میں جوڑے رکھتے ہیں۔ یہ اُن پر فرض ہوتا ہے کہ وہ ایسی اخلاقی قدروں کا تعین کریں جنہیں اپناتے ہوئے معاشرے کا کوئی بھی حصہ احساس کم تری کا شکار نہ ہو۔ وہ ایسی روشن تہذیب کی بنیاد رکھیں جو سماجی برائیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ وہ ایسا نظام حیات تشکیل دیں جو انسانی معاشرہ کے تمام طبقات کو برابری کی بنیاد پر مواقع فراہم کرے۔

یہ اس لیے بھی ضروری ہے کے معاشرے کی اخلاقی سطح کا تعین لیڈر کے ہاتھ میں ہوتا ہے سماجی اقدار کی ضمانت، قوم کے راہ بر ہی دیا کرتے ہیں۔ اب جس سماج کے لیڈر بنتے ہیں نہایت غیر فطری طریقے (جس پر پھر کبھی گفتگو ہوگی) سے ہوں۔ جہاں چند جتھوں کے نمایندہ رہ نما ہوں، جہاں سماج کے جملہ حقوق چند سرمایہ دارانہ قوم کے نام محفوظ ہوں، جہاں سماج پر حکمرانی کا حق چند خاندان اور معاشرے کی ایک مخصوص کلاس کو حاصل ہو اور ان تمام کی زندگی کا مقصد اقتدار کی راہ داریوں پر قبضہ ہو تو ایسے لوگوں کے لیے اپنی یا قوم کی تربیت کچھ معنی نہیں رکھتی۔

یہی ہمارے سماج کا المیہ ہے کہ اس پر مسلط حکمران دوسروں کی تربیت تو کیا کرتے اُن کی اپنی تربیت اس قدر پست درجے کی ہے کہ وہ جب بھی زبان کا استعمال کرتے ہیں، تو منہ سے شعلے جھڑتے ہیں۔ جب اُنہیں کوئی عمل کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ تفرقہ بازی پیدا کرتے ہیں۔ وہ قانون ساز اداروں میں بیٹھیں تو آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوتا ہے مگر اُس کا اختتام ایسے الفاظ میں ہوتا ہے جو کوئی مہذب شخص اپنی زبان پر نہیں لا سکتا۔

ویسے آپ اگر ہمارے اِن راہ بر، انِ ملت کے حالاتِ زندگی پر نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہاں ملکی تعمیر و ترقی پر گفتگو کرنے کی بجائے مخالفین سے نفرت پہ بات ہوتی ہے۔ قوم تقسیم در تقسیم کا سو قومی نظریہ قبول کرتی ہے تو کرتی رہے، بس مخالفین کی مخالفت ہونی چاہیے۔ مگر جب یہ سبق معاشرے کے نچلے طبقات تک سفر کرتا ہے تو نچلے طبقات تقسیم کی بھینٹ چڑھ کر احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ پنجاب کا غریب دہقان ہو یا سندھ کا مظلوم ہاری ہو، وہ اینٹوں کے بھٹے پہ کام کرتا معصوم مزدور ہو یا گھر کی قبر میں زندہ درگور عورت، اس سماج کا ہر محروم، ہر ذی روح کسی چلتے پھرتے خود کش حملہ آور سے ہر گز کم نہیں۔

ابھی چند روز پہلے جب اپنے وزیر اعظم کے منہ سے ایک سیاسی مخالف کے لیے لفظ ”صاحبہ“ بطور تنقید سنا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا، کہ حضور اپنے تئیں کس کو گالی دے رہے ہیں، مخالفین کو یا عورتوں کو یا شاید انسانیت کو۔ مگر پھر جب گزشتہ ستر برس کے اخبارات اٹھائے تو کچرے کا ایک ایسا ڈھیر برآمد ہوا جس کے سامنے یہ الفاظ بہت معمولی دکھائی دینے لگے۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کے آخر ہماری سوچ کس قدر پستی کا شکار ہو چکی ہے جو ہم ایک جنسِ انسانی کو کمتر، حقیر اور دوسرے کو طاقت و عظمت کی علامت سمجھتے ہیں۔

ٹھیک ہے اگر مرد کو خدا تعالی نے جسمانی طور پر کچھ مضبوط بنایا ہے تو کیا ہوا۔ عورت کے پاس بھی تو کئی ایسی خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر وہ یہ دعوی کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ مرد ذات پر برتر ہے۔ مثال کے طور پر نسل انسانی کو بڑھانے ہی کا کام لے لیجیے اس نازک اور اہم ترین کام کے لئے خالق ارض و سما نے جس کو اپنا شریک ٹھہرایا تو وہ عورت ہے۔ کسی معاشرے کی صنفی بنیادوں پر تقسیم نہ صرف بہت خطرناک عمل ہے بلکہ میرے نزدیک گناہ کبیرہ ہے۔

یہ اس معاشرے کی پستی ہے جو ہم کسی کو گالی دینا چاہتے ہیں، تو عورت کے لقب سے نوازتے ہیں۔ کسی کی تعریف کرنا چاہتے ہیں تو اسے مرد کہہ دیتے ہیں۔ مگر حضور، یہ تقسیم یک دم قائم نہیں ہوئی۔ ہمارے معاشرے میں گالیوں کا ارتقا بھی خاصا دل چسپ اور افسوس ناک بھی ہے۔ پہلے ہم نے عورت ذات سے جڑے ہر مقدس رشتے کی توہین کی، اس کی حرمت کو اپنی نا پاک خواہشات کے قدموں تلے روندا اور آخر میں لفظ عورت کو ہی گالی بنا ڈالا۔

معاشرے میں صنفی امتیاز قائم کرنے کا سہرا یقینا ہمارے اُن راہ بروں کے سر بندھتا ہے جنہوں نے یہاں تقسیم کے ایسے بیج بوئے کہ معاشرے کا ہر طبقہ ذلت اور محرومی کے احساس میں ڈوب گیا۔ موجودہ وزیراعظم نے بلاول بھٹو زرداری کو ”صاحبہ“ مخاطب کرنے کے بعد اگر ان سے معافی مانگ بھی لی تو اُنہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ نے بلاول کی شان میں تو جو گستاخی کی، سو کی، مگر اُس کے ساتھ ساتھ آپ نے عورت ذات کے مقدس مرتبہ کی توہین بھی کی، صنفِ نازک کے حقوق کی پا مالی کی۔ آپ انسانیت کی اعلی قدروں کی تذلیل کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔

آپ سے نہایت ادب سے میرا یہ سوال ہے، کے یکم مئی کو تو آپ نے بلاول بھٹو سے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا، مگر اپنے اِس تضحیک آمیز رویّے سے دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی بلکہ تمام انسانیت کی جو آپ نے تذلیل کی اس پر معافی کب مانگیں گے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں