اسمبلی اجلاس کی اوپننگ شاہ محمود قریشی کے حصے میں کیسے آئی؟ سمیع ابراہیم 11 656

اسمبلی اجلاس کی اوپننگ شاہ محمود قریشی کے حصے میں کیسے آئی؟ سمیع ابراہیم

کرونا کےہنگامے کے بعد 11مئی 2020 کو قومی اسمبلی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ اس اجلاس میں کرونا کے حوالے سے عوام کو اقدامات اور مستقبل کے لائحہ عمل سے اگاہ کیا جائے گا۔ خیال تھا کہ ملک میں گرتی معاشی صورتحال پر بات کی جائے گی  اور کرونا سے پیدا ہونے والے معاشی بحران پر بھی کوئی نہ کوئی لائحۂ عمل سامنے آئے گا۔

لیکن حسب روایت قومی اسمبلی کے اس اجلاس کا رنگ بھی غیر سنجیدہ رہا ۔سونے پر سہاگہ یہ کہ جو لوگ اس صورتحال میں ہماری قیادت کر رہے ہیں ان  سیاسی قائدین نے اس اجلاس میں شرکت کرنےکی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔لیکن اس سب کے باوجود ہم اس  اجلاس کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتے۔

یہ بات کسی سے  ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ہرسیاسی جماعت میں کچھ نہ کچھ اندرونی اختلافات ہوتے ہیں۔ شاید یہی جمہوریت اور سیاست کا حسن بھی ہے۔ بحر حال کچھ اسی طرح تحریک انصاف میں بھی مستقبل کی قیادت کے حوالے سے کچھ اختلافات موجود ہیں اور مختلف ادوار میں کچھ دھڑے بھی موجود رہے  ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا گروپ جہانگیر ترین کا  تھا۔  گو کہ سپریم کورٹ سے جہانگیر ترین کی  نااہلی کے باعث اس کا اثر تو کافی حد تک کم ہو چکا تھا ۔ لیکن وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے بعد ایک بار پھر ترین کو اہمیت ملی تھی۔ تاہم  آٹا چینی سکینڈل کے بعد تو فی الوقت اس گروپ کا  اثر بہت ہی کم ہو گیا ہے۔

اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ بات بھی  واضح ہے کہ تحریک انصاف میں  عمران خان کے بعد شاہ محمود قریشی مستقبل میں تحریک انصاف کی قیادت کے مضبوط امیدوار ہیں اور ان کا حلقہ پی ٹی آئی میں ایک مضبوط حلقہ تصور کیا جاتا ہے ۔ کرونا کے حوالے سے قومی اسمبلی کے جب پہلے اجلاس کا آغاز ہوا تو حکومتی موقف کی نمائندگی کے لیے ابتدائی گفتگو شاہ صاحب کے حصہ میں آئی۔

اب اس کے برعکس اگر موجودہ صورتحال اور کرونا سے نمٹنے کی بات کی جائے تو اس کی بنیادی ایک طرح سے اسد عمر صاحب کے ہاتھ میں ہے۔کرونا کے حوالے سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کمیٹی  کی سربراہی بھی اس وقت اسد عمر کر رہے ہیں۔ کرونا کے حوالے سے جتنے بھی بڑے فیصلے ہوئے ہیں یعنی کون سی جگہ کو قرنطینہ کے لیے منتخب کیا جانا چاہیے کون سی ادویات اور چیزوں کی ضرورت ہے عملے کے لیے حفاظتی آلات برآمدات ہوں گے ۔ اس سب سے  متعلق تمام  فیصلے اسد عمر صاحب کی قیادت میں ہوئے لیکن جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو یہ دیکھ کر کافی لوگوں کو تعجب ہوا کہ بحث کا آغاز اسد عمر نے نہیں شاہ محمود قریشی نے کیا۔

شاہ محمود قریشی کا ایک اور باؤنسر۔ ویڈیو دیکھئیے

اندرونی ذرائع کے مطابق اس حوالے سے دونوں رہنماؤں میں کچھ اختلاف تھا۔  اسد عمر کا موقف  یہ تھا کہ چونکہ وہ اس وقت کرونا کے معاملات کو لے کر چل رہے ہیں اور ان کے پاس اس حوالے سے زمینی حقائق بھی موجود ہیں سو انہیں اس بحث کا آغاز کرنا چاہیے ۔لیکن بادشاہ کی طرف سے یا یوں کہ لیجیے عمران خان کی طرف سے فیصلہ شاہ محمود قریشی کے حق میں آیا جس سے ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر اپنے سیاسی مخالفین کو پچھاڑ دیا ہے بلکہ اس واقعہ سے تو لگتا ہے کہ انہوں نے مخالفین کو کلین بولڈ کر دیا ہے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان کی غیر موجودگی میں تحریک انصاف کی قیادت یا ڈوری شاہ صاحب کے ہاتھ میں ہے

ویسے یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے، اس سے پہلے بھی  کئی موقعوں پر عمران خان ایسے ہی اہمیت شاہ صاحب کو دیتے آئے ہیں۔ آج سے  تقریباًایک مہینے قبل وزیراعظم نے جب آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ سے درخواست کی تھی کہ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کرونا کی وجہ سے مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے اس لیے امیر ممالک کو غریب ممالک کے بارے میں سوچنا چاہیے اور  ان کے قرضوں میں نرمی ہونی چاہیے۔  اس کے بعدآئی  ایم ایف نے پاکستان  سمیت تقریباً 72 ممالک کے  لیے ریلیف کا بھی اعلان کیا۔ خیر  اُس معاشی ریلیف کے اعلان کے وقت بھی ایسے ہی اختلاف نے جنم لیا تھا۔

اس وقت حفیظ شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ کام چونکہ وزارت خزانہ کے دائرہ کار میں آتا ہے سو اس کا اعلان بھی انہیں کرنا چاہیے۔ اس پر وہ یہ شکایت لے کر عمران خان صاحب کے پاس پہنچے تھے اور تاہم اس وقت بھی وزیر اعظم نے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ ٹیکنوکریٹ ہیں آپ کا کام حکومت کی معاونت کرنا ہے۔  سیاسی معاملات میں کس کو کیا اختیار دینا ہے اسکا اعلان میں کروں گا اور اسکے بعد معاشی ریلیف کا اعلان بھی شاہ محمود قریشی نے ہی کیا تھا۔

موجودہ حالات میں نظر تو یہی آرہا ہے کہ شاہ محمود قریشی اس وقت وزیر اعظم  عمران خان کا دایاں بازو ہیں۔ اور کچھ اور معاملات میں بھی تحریک انصاف کی نمائندگی شاہ محمود قریشی  ہی کر رہے ہیں۔ اگر چہ اٹھارویں ترمیم اور نیب آرڈیننس کے حوالے سے اسد عمر کے کئی بیانات سامنے آئے ہیں کہ وہ اپوزیشن سے رابطے میں ہیں ۔ تاہم واقفان حال یہ بتاتے ہیں کہ اٹھارہویں ترمیم اور نیب کے قانونی معاملات پر  شاہ صاحب کا کردار زیادہ اہم ہے۔

یقیناً لوگوں  کہ ذہن میں یہ بات ہو گی کہ  شاہ صاحب کہ پاس کہ وہ کون سی جادو کی چھڑی ہے جس کے وجہ سے وہ آج  عمران خان صاحب کے چہیتے بنے ہوئے ہیں۔ تو  بات یوں یہ کہ سیاسی فہم و فراست کے حوالے سے ان کا قد کاٹھ سب کو معلوم ہے۔ مگر سیاسی قوت کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو  شاہ صاحب کے تعلقات اور ان  کا اثر و وسوخ بہت وزن رکھتا ہے۔ طاقتور حلقوں کے ساتھان کے تعلقات  ہمیشہ سے خوشگوار رہے ہیں۔ صرف ملکی ہی  نہیں بلکہ وہ  عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بھی گڈ بک میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ اور جب  طاقت کے تمام مراکز آپ کیلئے نیک خواہشات رکھتے ہوں تو پھر مستقبل میں کوئی بھی اہم ذمہ داری ملنا کچھ بعید از قیاس نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں