معزز عدلیہ اور گھٹیا الزامات۔۔۔اُسامہ اقبال خواجہ 11 247

معزز عدلیہ اور گھٹیا الزامات۔۔۔اُسامہ اقبال خواجہ

کچھ دن ہوئے اک شور بپا ہے۔ ساہیوال واقعے کا فیصلہ کیا آیا، سوشل میڈیا کے بد زبانوں کو گویا چھ گز کی ایک اور زبان مل گئی۔ معزز عدلیہ کے بارے میں ایسی گالم گلوچ کہ خدا کی پناہ۔ جب سے اس نئی نسل کے ہاتھ چائنہ کے سستے موبائل، سوشل میڈیا کی مفت ڈگریوں کے ساتھ آئے ہیں، انہیں تو ایک موقع سا مل گیا ہے۔ جو جی میں آئے، بکتے جاؤ۔ جس کو چاہے گالیاں نکالو، جسے چاہے فرشتہ بنا دو۔ چاہو تو انصاف کے مراکز کو طوائف کے کوٹھوں سے پُکارو، اور دل کہے تو صاحبان انصاف پر الزامات لگا ڈالو، کون پوچھنے والا ہے؟

آپ پہلے تو الزامات کی ہی تحقیقات کر کے دیکھ لیں، دودھ اور پانی علیحدہ علیحدہ ملاوٹ سے پاک نہ نکلے تو بات ہے۔ الزامات کیا ہیں، کہتے ہیں جناب کہ یہاں قانون اندھا ہے، ارے بھائی قانون تو ساری دنیا میں اندھا ہے، ہمارے یہاں تو پھر کانا ہے۔ اب بات یہ ہے کہ اندھے اور کانے میں کچھ بنیادی فرق ہے، ہمارا قانون اپنی ایک آنکھ سے ہی اپنوں کو پہچان لیتا ہے جبکہ اندھا قانون اپنے پرائے کسی میں فرق نہیں کر پاتا۔ دوسرا یہاں والے کانے قانون کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کوئی طاقتور ہستی اسے ہڈی ڈالتی ہے۔ لیکن قانون کو اندھا، کانا کہنے سے اس کا تو کچھ نہیں جاتا البتہ ہم جیسے اندھے ،کانے لوگوں کے دلی جذبات ضرور مجروح ہوتے ہیں۔ سو ! الزامات لگانے والوں کو اس طرف بھی سوچنا چاہیے۔

معزز عدلیہ اور گھٹیا الزامات۔۔۔اُسامہ اقبال خواجہ 12

ایک اور الزام جس کا تذکرہ پہلے بھی گزر چکا تاہم دوبارہ روشنی ڈال کر اپنے چہرے پہ مزید سیاہی مَلتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ کون سا ملک ہے جہاں آزادی اظہار کے نام پر کوٹھا چلانے والوں کو یوں بدنام کیا جاتا ہے۔ وہ بےچاریاں رات میں ایمانداری سے بھی محنت کریں تو دھندہ اور گندہ۔ اور ادھر یہ صاحبان با صِفا دن کی روشنی میں بھی سیاہ فیصلے دیں تو بدنام کوٹھے والی طوائف اور رنڈیاں۔ جناب معیار ایک طے کیجیے اور پھر ایمان داروں اور ایمان فروشوں کی الگ الگ صف قائم کیجیے۔ ورنہ یہ جو انصاف فروخت کرنے والوں پر طوائف اور رنڈی کا الزامات لگاتے ہیں تو صاف بات ہے کہ رنڈی اپنا جسم ضرور بیچتی ہے، مگر ایمان نہیں۔ کیوں ایسے معزز پیشہ لوگوں پر گھٹیا اور رقیق الزامات لگاتے ہیں، جن سے معاشرے کے باقی طبقات میں احساس محرومی مزید بڑھے۔

نظام انصاف کی عزت سے بات چلی تھی اور کوٹھے پر پہنچ گئی، خیر واپس آتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں سانحے ساہیوال سے بہتر تیز رفتار انصاف کی مثال کیا ہو گی۔ لیکن بہتر مثال دیکھنی ہے تو میاں نواز شریف کا مقدمہ دیکھ لیں۔ جیسے ہی نظام عدل کے گدی نشینوں کو معلوم ہوا کہ مریض کی حالت خطرے کے اندر ہے فوراً سے پہلے سب کو لائن حاضر کر دیا ۔ آخر انسانی جان سے آگے کس شے کی قیمت ہو سکتی ہے۔ اور پھر ان معزز کمروں میں بیٹھے فرشتوں سے بہتر انسانی جان کی حُرمت کون جانتا ہے۔ انہوں نے تو سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو سزائے موت شاید اس لیے نہیں دی کہ پہلے ہی انسانی جانوں کا ضیاع ہو چکا اب مزید انسانی زندگیوں سے کیوں کھیلا جائے۔بہرحال بنگالی عدالتوں کو ہمارے نظام انصاف سے کچھ سیکھتے ہوئے “سرکاری دیت” جیسی کوئی نا کوئی گنجائش ضرور نکالنی چاہیے۔ تاکہ ایک قتل کے پیچھے 16 لوگوں کو پھانسی چڑھا کر یوں ملکی افرادی قوت ایک دم سے خطرے میں نہ ڈالی جائے۔

جو ٹی وی والے ڈیل یا ڈھیل کے گندے الزامات لگا رہے تھے یہ تو بہت اچھا ہوا جو سب کو بُلا کر جھاڑ پلائی ہے، آخر اداروں کی بھی تو کوئی عزت ہوتی ہے۔ ان کی عزت نہ ہو اور سستی عوام کی عزت ہو، ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟۔

اب تو ہمارا اجتماعی “جی” بھی یہی چاہتا ہے کہ ہمارے اداروں کی عزت کا شملہ ہمارے جنازے سے بھی زیادہ بڑا ہو۔ اور پھر جو کوئی بد تمیز شخص کسی باوردی پوش یا معزز جج کی طرف گندی مندی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش بھی کرے تو فوراً سے پہلے توہین کا نوٹس اُسے واٹس ایپ کر دیا جائے۔ یقیناً اس کے بعد ہمارے عوامی جنازوں کے لیے کوئی اعلان کرنے والا میسر آئے یا نہ آئے عدالتی توہین پر سزائے موت سنانے والا منصف ضرور ملے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں