دوراہے پرکھڑے نوازشریف  11 329

دوراہے پرکھڑے نوازشریف 

ایک طویل عرصے کے بعد پی ڈی ایم سربراہی اجلاس آج ہوگا۔ پی ڈی ایم کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف کا بھی اس سربراہی اجلاس سے خطاب متوقع ہے، جنہیں اس وقت 2 محاذوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک تو اندرونی طور پر ان کی جماعت بیانیے کے معاملے پرمخصمے کا شکار ہے۔ اور بیانیے کے معاملے پر ان سے اختلاف کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے اپنے بھائی میاں شہباز شریف ہیں۔ پارٹی کے اندر کئی سنجیدہ لوگوں نے بھی اب ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ جماعت کا بیانیہ کیا ہوگا۔ کیونکہ کئی سینئر لیگی زعماء کا یہ خیال ہے کہ بلاوجہ کی محاذ آرائی ان کو اپنے حلقے کی سیاست تک میں نقصان پہنچا رہی ہے۔ لیگی قائد کو اس کے علاوہ اپنے ویزے کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا ہے ۔

کیونکہ جب سے برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ نے طبی بنیادوں پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی ویزا توسیع کی درخواست مسترد کی ہے تب سے یہاں ایک ہنگامہ سا کھڑا ہو گیا ہے۔ حکومتی نمائندوں نے یہ درخواست مسترد ہوتے ہی یہ پیش گوئیاں شروع کر دی تھیں کہ اب جلد ہی برطانوی حکام لیگی قائد کو واپس پاکستان بھیج دیں گے۔ بظاہر یہ فیصلہ حکومتی موقف کی توثیق ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا ان کے رہنما کی صحت کی خراب حالت کے بارے میں بیان غلط ہے۔ دریں اثنا ، مسلم لیگ (ن) نے فیصلے کے مضمرات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے ، اور نواز شریف کی جلد کسی بھی وقت واپسی کے امکان کو مسترد کردیا ہے۔

در حقیقت ، نواز شریف کے لیے ویزا مسترد ہونے کے باوجود قانونی طور پر برطانیہ میں اپنے قیام کو کچھ سال تک بڑھانے کے طریقے ہو سکتے ہیں ، جیسا کہ امیگریشن ماہرین نے بتایا ہے۔ انہوں نے پہلے برٹش امیگریشن ٹریبونل میں اپیل دائر کی ہے تاکہ وہ قانونی طور پر برطانیہ میں رہ سکیں جب تک کہ کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا اور اس میں ڈیڑھ سال لگ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ان کے اپیل کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں ، سابق وزیر اعظم لندن میں اپنے قیام کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ٹریبونل کے فیصلے کی صورت میں بھی وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنا سیاسی دانشمندانی ہو گی ؟

خود ساختہ جلاوطنی میں ، نواز شریف کو مکمل آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو دور سے چلائیں اور بغیر کسی پابندی کے اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ ان کی واپسی پر انہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ حکومت نے بار بار اشارہ بھی کیا ہے ۔ اور یوں ان کی آزادانہ بات کرنے اور اپنی پارٹی کے ساتھ رابطے میں رہنے کی صلاحیت بھی محدود کردی جائے گی جب تک کہ انہیں عدالتی مقدمات میں کچھ کامیابی نہ مل جائے، جو کہ اتنا جلدی ناممکن نظر آتا ہے۔

نواز شریف کو جب سے چار ہفتوں کی ضمانت پر علاج کے لیے ملک چھوڑنے کی اجازت ملی تھی ، انہوں نے واپس آنے کا وعدہ تو کیا تھا لیکن وہاں جاکر کبھی بھی انہوں نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ اب بھی مناسب وقت ہے کہ وہ اپنی خود ساختہ جلا وطنی کو ختم کریں۔ بیرون ملک قیام کو غیرمعینہ مدت تک بڑھانے کی کوشش کرنے کی بجائے وطن واپس آکر عدالتوں کا سامنا کریں۔ اپنا مقدمہ لڑیں اس بات سے قطع نظر کہ انہیں موجودہ مقدمات پر تخفظات ہیں۔ یہاں جیل میں رہ کر مقدمات کا سامنا کرنا ان کی پارٹی کو دفاع کے لیے بہتر گراؤنڈ مہیا کرے گی۔ اور اگلے الیکشن کے لیے بھی وہ بہتر نتائج کی توقع رکھ سکیں گے۔

یہ بالکل واضح ہے کہ اگر نواز شریف نے اپنے رویے میں مناسب تبدیلی پیدا نہ کی تو وقت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ ان کے بیانیے کو جلسوں کی صورت میں شاید پذیرائی بھی ملی ہو مگر ووٹرز کے رجحان نے پہلے گلگت، پھر آزاد کشمیر اور ابھی حال ہی میں فیصل آباد میں ان کی پالیسی پر سنجیدہ سوالات قائم کیے ہیں۔ ان تمام پریکٹسز میں ایسا بھی کچھ خاص نہیں ہوا کہ وہ اسے دھاندلی قرار دے سکیں۔ لیگی صدر شہباز شریف 2018 تک کے انتخابات کو پہلے ہی ناقص حکمت عملی کا نتیجہ قرار دے چکے ہیں۔ تو ایسے میں وقت ہے کہ بلاوجہ محاذ آرائی کی بجائے کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھا جائے اور وطن واپس آکر مقدمات کا سامنا کیا جائے۔ وگرنہ جیل اور مقدمات سے گھبرانے کا بیانیہ لے کر ان کے مخالفین بازی لے جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں