وزیر اعظم صاحب آنکھیں کھولیں۔۔ 11 755

وزیر اعظم صاحب آنکھیں کھولیں۔۔

نظریاتی کارکن کسی بھی جماعت کا قیمتی ترین اثاثہ تصور کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایسی فورس کا روپ دھار لیتے ہیں جو اپنے قائدین کو جماعتی منشور اور انتخابی وعدوں سے انخراف نہیں کرنے دیتی۔ لیکن اگر بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد چھاتہ بردار اقتدار کے ایوانوں میں گھس بیٹھئیے بن جائیں اور نظریاتی کارکن ایک بھولی ہوئی داستان قرار پائیں تو پھر عوامی خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔ وعدوں کو بھلا دیا جاتا ہے

پی ٹی آئی کی حکومت میں جہاں عمران خان کی  شخصیت نے ابھی تک نوجوانوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے جو انتظامی نقائص، مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے باوجود امیدوں کی مالا گلے میں ڈالے ناچ رہے ہیں۔ وہاں چند پیراشوٹرز اور وہ وزراء، جو ماضی میں ہر حکمران جماعت کا حصہ رہے ہیں، مستقبل میں بھی جب عمران خان اقتدار سے باہر ہوں گے تو وہ انہیں چھوڑ جائیں گے، کچھ ایسے کاموں میں مصروف ہیں جس نے آزادی صحافت جیسے بنیادی حقوق کے حوالے سے قوم کو ایک پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو ایک آرڈیننس کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ جس کے تحت اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

حکومتی اکابرین، سیکورٹی فورسز کے اعلی حکام، بیوروکریٹس اور عدلیہ کے ممبران کے خلاف بات کرنے پر لاکھوں روپے جرمانے اور 3 سے 5 سال کی سزا سنائی جا سکے گی۔ یہ سزائیں سنانے کیلئے شکایتی کونسلیں بنائی جائیں گی۔ سزا کو میڈیا ٹربیونل میں چیلنج کیا جا سکے گا۔ میڈیا ٹریبونلز کی سزاؤں کے خلاف اپیل سننے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کو ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری تمام ریگولیٹری ایجنسیز کو ضم کر دیا جائے گا اور صرف پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی میڈیا سے متعلق معاملات کو دیکھے گی۔

عمران خان اس وقت سیاسی طور پر انتہائی مضبوط نظر آرہے ہیں۔ سندھ کے علاوہ سارے پاکستان پر ان کی حکومت ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں کشمیر کا الیکشن جیتے ہیں۔ پنجاب میں یہ تصور کہ ن لیگ کا ووٹ بینک مضبوطی کے ساتھ نوازشریف کے پیچھے کھڑا ہے سیالکوٹ کے پی پی 38 میں پاش پاش ہو گیا ہے۔ ایسے وقت میں غیر نظریاتی زعماء کے ایما پر صحافت کو کنٹرول کرنے کیلئے پی ایم ڈی اے کو ایک آرڈیننس کے ذریعے منظور کر کے قوم پر مسلط کرنا ایک چنگاری کی مانند ہے جو ایک بڑی آگ کا باعث بن سکتی ہے۔ تمام صحافتی تنظیمیں، اخبارات، چینلز کے مالکان کی تنظیمیں، وکلاء کی اکثریت اور سول سوسائٹی اس حکومتی تجویز کو رد کر چکے ہیں۔ لیکن وزارت اطلاعات کی جانب سے اس تجویز کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بجائے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے مسلط کرنے کی کوشش وزیراعظم عمران خان کی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ان کا سیاسی قد کاٹھ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں تحریر و تقریر کی آزادی کیلئے صحافیوں، وکلاء اور سول سوسائٹی نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ کوڑے کھائے اور جیلوں میں بند ہوئے، اپنی جانوں کا نظرانہ بھی پیش کیا اور اب ان آزادیوں کی حفاظت کی حفاظت کیلئے ہر طرح کے اقدامات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

حکومت کو چاہئیے کہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کی وجہ کو ایڈریس کرے۔ صحت مند تنقید اور کارکردگی پر سوالات ہی جمہوریت اور نظام میں بہتری لاتے ہیں۔ ڈکٹیٹر کی طرح ہر مخالف کو غدار کہنا، صحافیوں کو گرفتار کرنا، ان کے پروگرام بند کرنا ایسے اقدامات ہیں جو اقتدار کی ٹرین میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔ طاقت کے ذریعے سیاسی مخالفین کو دبانے اور میڈیا کو سزا دینے سے کوئی حکومت نہ ماضی میں مضبوط ہوئی اور نہ ہی اب کوئی زیادہ دیر تک چلے گی۔ اس ساری صورتحال کی بنیادی وجہ شاید موجودہ کابینہ میں وہ لوگ ہیں جو ماضی میں مشرف، زرداری اور ق لیگ کے گیت گا چکے ہیں، ایسے کم ظرف مشیران وزیراعظم عمران خان کو مکمل تباہی کے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ افسوس کے وزیراعظم اپنے گرد ایسے لوگوں کو لانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو انہیں ان کے مرتبے کی پرواہ کیے بغیر سچ بتانے کا حوصلہ رکھتے۔

یہ ابن الوقت مشیران تو اقتدار کی کشتی ڈگمگاتے ہی بھاگ جائیں گے۔ اور صرف عمران خان ہی اس ساری تباہی کا حساب دینے کیلئے کٹہرے میں کھڑے ہونگے۔ ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو بہت ساری خصوصیات ہونے کے باوجود اپنے دو نمبر مشیران کی خوشامد کے چکر میں بعض صحافیوں کے خلاف حد کو کراس کر گئے، لیکن انہیں ان کی سزا ملی اور پوری قوم نے دیکھا۔

موجودہ حالات میں وزیراعظم صاحب کیلئے سب سے بہترین راستہ یہی ہوگا کہ جو کوئی بھی حکومتی تجویز ہے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ ایک. سیر حاصل بحث ہو، حکومت اور اپوزیشن مل کر اس مسئلے پر قانون سازی کریں۔ سسٹم کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی بات کو سنا جائے اور ان کے مشورے کی روشنی میں نیا قانون بنایا جائے وگرنہ جو کچھ وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی محاذ پر مل گیا ہے وہ سب ضائع ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں