آثار نہیں پر طوفان آ تو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ 11 470

آثار نہیں پر طوفان آ تو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔

الیکشن 2018 کے بعد جب تحریک انصاف کی حکومت معرض وجود میں آئی تو خیال تھا کہ عمران خان ایک مضبوط اپوزیشن کی وجہ سے شاید یہ حکومت اتنی آسانی سے نہ چلا سکیں۔عوامی توقعات بہت زیادہ تھیں، وسائل انتہائی محدود، پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا مضبوط مورچہ تھا۔ وزیراعظم عمران نے حکومت میں پہلا ایک سال احتساب کے نعروں کی گونج میں گزارا،ایک اُمید قائم ہوئی کہ شاید شفاف اور غیر امتیازی احتساب کرپشن کے عفریت کو قابو کر لے گا۔ لیکن بعض ایسے افراد وزیراعظم کے اردگرد جمع ہو گئے جو خود احتساب زدہ تھے اور نہایت چالاکی اور مہارت سے احتساب کی ساری مہم کو اس طرح داغدار کیا گیا کہ اب حقیقت میں وہ محض نعروں کی حد تک رہ گئی ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری سے امیدوں کے خواب بکھر گئے۔ گذشتہ سال جب پی ڈی ایم کا وجود عمل میں آیا تو پہلی دفعہ یہ احساس زور پکڑنے لگا کہ شاید اب تحریک انصاف کی معمولی عددی اکثریت سے قائم حکومت کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔

گوجرانوالہ میں پہلے جلسے نے اپوزیشن کےکارکنوں میں تحرک پیدا کیا بعد میں ملک کے متعدد شہروں میں بڑے بڑے جلسے ہوئے میڈیا نے بھی بھرپور کوریج دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے خواب سے دور ہوتی گئی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی پاکستانی اداروں بالخصوص  سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زبان تھا جس میں ذاتی پرخاش کی بُو اتنی زیادہ تھی کہ احتجاج ذاتی افئیر لگنے لگا۔ پنجاب میں نوازشریف کی حمایت تو موجود رہی لیکن اکثریت نے فوج پر بطور ادارہ تنقید مسترد کر دی۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات اس کا ثبوت تھے ن لیگ تمام تر مخالفت کے باوجود الیکشن جیتتی رہی۔

اسی دوران پیپلز پارٹی نے روایتی سیاسی حکمت عملی اپنائی۔ فوج اور اسٹیبلیشمنٹ پر تنقید بھی کی لیکن ان کے ساتھ مل کر سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کو پہلے سینیٹر بنوایا اور پھر انہیں سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر بھی بٹھایا۔ کوئی تسلیم کرے یا ناں کرے، آصف زرداری نے ن لیگ سے بہتر سیاست کی اور سینیٹ میں بہتر پوزیشن حاصل کی۔ اور دوسرا بڑا فیکٹر پی ڈی ایم کی ناکامی کی وجہ بنا وہ ن لیگ میں شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان اقتدار کی سرد جنگ تھی۔ پیپلزپارٹی کی پنجاب میں عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز نوازشریف سے صرف اس لیے رد کر وادی گئی کہ کہیں حمزہ شہباز پنجاب میں وزیراعلیٰ نہ بن جائے یا زیادہ موثر نہ ہوجائے جو کہ مریم نواز کی سیاست کیلئے دھچکا ہوگا۔

بالکل اسی طرح جب نوازشریف صاحب نے سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد اعلان کیا تھا کہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جائے گا لیکن پھر بعد میں فیصلہ تبدیل ہوا اور شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا گیا۔ مسلم لیگ کے انتہائی قریبی ذرائع کے مطابق محترمہ کلثوم نواز کا اس تبدیل شدہ فیصلے میں ایک بڑا ہاتھ تھا۔ اور شاید مریم صاحبہ اپنی والدہ کی اس بصیرت کو ابھی تک فالو کر رہی ہیں۔ بہر حال نوازشریف اور مولانا فضل الرحمنٰ کی طرف سے یہ مطالبہ کہ لانگ مارچ سے پہلے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینا چاہئیے بظاہر وجہ نفاق بنا اور پھر پیپلز پارٹی،اے این پی کے ہمراہ باہر ہو گئی۔ اپوزیشن کے اس اتحاد سے سٹیم نکل گئی، پہلے گلگت اور پھر آزاد کشمیر کے انتخابات میں مریم نواز کی اداروں پر تنقید نے اسٹیبلشمنٹ میں اس سوچ کو مزید پکا کیا کہ نواز شریف اور مریم نواز سے دوری ہی بہتر ہے۔ لیکن اسی بیچ شہباز شریف صاحب کی کوششوں کو دبایا گیا جو اپنی جماعت کے لیے ایک درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔

گزشتہ دنوں تقریباً تین ماہ کے وقفہ کے بعد پی ڈی ایم کا اجلاس دوبارہ اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کے علاوہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔ نوازشریف اور مریم نواز بذریعہ ویڈیو لنک موجود تھے۔ اجلاس کے اندر موجودہ سیاسی صورتحال پر کھل کر بات ہوئی۔ لیکن جو طے ہوا اس سے لگتا ہے کہ اب وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ نوازشریف نے اسمبلیوں کے اندر حکومت کی تبدیلی کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ جب کہ لانگ مارچ اور ایک بھرپور احتجاج کو شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے بھی رد کر دیا۔ حالانکہ مولانا ماضی میں سخت گیر موقف کے حامی تھے۔ اب اگست میں آخر میں اپوزیشن احتجاجی جلسیہ کرے گی ۔ گویا مستقبل میں بھی احتجاج کی صورت شاید ہفتہ وار یا پندرہ دنوں کے بعد ایک جلسہ ہوگا۔ اور مرکز میں عدم اعتماد کی تحریکیں اپوزیشن کے ایجنڈے پر نہیں ہیں۔اتفاق اس بات پر ہے کہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے کوشش کی جائے۔حکوومت کی طرف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا گیا۔

معاملہ بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب اپنے اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلیں تو پارٹی کے اندر جہانگیر ترین کے گروپ کو قابو میں رکھیں تو اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور ہی اتنی سکت کہ وہ عمران خان یا بزدار حکومت کو ہلا سکیں۔ایک بات پھر بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ وطن عزیز پاکستان ہے جہاں اگر آسمان پر سورج چمک رہا ہو اور اکا دکا بادل ہوں تو بھی موسلا دھار بارش ہو سکتی ہے۔بغیر کسی وارننگ کے آنے والی آندھی اور طوفان ہر شے کو اڑا کر لے جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں