شہباز شریف کی نئی ذمہ داری کیا ہے..؟ 11 300

شہباز شریف کی نئی ذمہ داری کیا ہے..؟

شہباز شریف کی نئی ذمہ داری۔۔حمزہ قربانی کیلئے تیار
جب دنیا نظریاتی گروہوں میں تقسیم تھی اور ایک وقت تھا کہ سیاست کو پیشہ پیغمبری سے تشبیہ دی جاتی تھی۔نظریات اور انتخابی منشور کی وجہ سے سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹے تھے۔وقت گزرتا رہا سوویت یونین کی کمیونسٹ ریاست کے خاتمے کے بعد سیاست کا رخ ہی بدل گیا۔نظریہ اور اصول کی جگہ پیسہ اور اثرورسوخ نے لے لی۔عوامی خدمت اورفلاح پر توجہ نہ ہونے کے برابررہ گئی جس کا اثر حکومتوں کی کارکردگی پر ہوا ۔وطن عزیز پر تو اس تبدیلی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔گزشتہ دو دہائیوں میں بننے والی حکومتوں کی ترجیح صرف اقتدار میں رہنا تھا انکے نزدیک الیکشن کے بعد پانچ سال تک برسر اقتدار رہنا ہی جمہوریت کا تسلسل اور کامیابی تھی۔
جمہور کے حالت کیا ہیں انکے مسائل کیسے حل ہوں گے اس کا ذکر صرف تقاریرمیں ہوتا رہا ہے۔یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ چند خاندان چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہوں حکمرانی صرف ان کا حق ہےانکے بغیر خدانخواستہ پاسکتان آگے نہیں بڑھ سکتا۔
2018 میں عمران خان نے سیاست کو خاندانی گھن چکر سے نکالا عوامی فلاح و بہبود اور احتساب کے نعروں سے قوم کو جگایا۔موجودہ حکومت تین سال پورے کرچکی ہے اس کی کارکردگی کے بارے میں میڈیا بھرپور انداز میں اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے ۔میں اس وقت اس حوالے سے بات نہیں کروں گا کیونکہ اس کے بارے میں فیصلے کا حقیقی اختیار عوام کو ہے جو انتخابات میں ووٹ کی طاقت کےذریعے اس کا اظہار کر دیں گے۔لیکن سیاسی ماحول چند ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ گرم ہو رہا ہے آٹھ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں تو حکومت کے خلاف کسی حقیقی احتجاج کا فیسلہ نہ ہو سکاتھا.اور پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کے امکانات کو بھی میاں وناز شریف نے مسترد کردیا تھا۔
لیکن اطلاعات مل رہی ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں کوئی کچھڑی پک رہی ہے بلاول بھٹو کی پہلے پنجاب اور پھر مرکز میں عدم اعتماد لانے کی تجویز کو شہباز شریف کی اردگرد ن لیگ کے بعض رہنماؤں نے سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے اس حوالے سے پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک چیمبر میں ہونے والے اجلاس کی گفتگو نےایک طرح کی آگ لگا دی ہے.بتایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کے کچھ سینئر رہنما جن میں خواجہ سعد رفیق،ایاز صادق ،خواجہ آصف،رانا تنویر اور رانا ثناءاللہ شامل ہیں کا خیال ہے کہ پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار کے خلاف اعتماد کی تجویز پر پر بلاول بھٹو سے گفتگو ہونی چاہیے۔اوراگر ق لیگ،پیپلز پارٹی اور ن لیگ مل کر پنجاب میں تبدیلی لا سکیں تو یہ اپوزیشن کے حق میں بہتر ہوگا۔یہ وہی بات ہے جس کا میں پہلے ذکر کررہا تھا کہ اب سیاست کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے بس ہاتھ ملائیں مطلوبہ ووٹ حاصل کریں تاکہ اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔انتخابی منشور یا ماضی کا چال چلن کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
اجلاس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے والے سینئر لیگی اراکین کی رائے تھی کہ اگر پیپلز پارٹی اپنے اراکین دے تو تعداد اتنی ہو جائے گی کہ جہانگیر ترین گروپ کو حمایت کیلئے لئے آمادہ کر لیا جائے۔اراکین کا خیال تھا کہ اگر اس کوشش کو آگے بڑھایا جائے تو پیپلز پارٹی کی طرف سے وزارت اعلی کا ممکنہ نام چوہدری پرویز الہی کا ہو سکتا ہے چودھری صاحب کے لیے ن لیگ کے کئی زعما کے دلوں میں بڑا احترام ہے اور ان کے ساتھ ساتھ مل کر
کام کرنے کو اچھا تصور کرتے ہیں۔اجلاس کے شرکاء کی اکثریت کا خیال تھا کہ ن لیگ کی حمایت سے پنجاب میں بننے والی حکومت میں لیگی اراکین کی صوبائی کابینہ میں شرکت سے کارکنوں میں حوصلہ آجائے گا۔صوبائی انتظامیہ جلد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگیوں کو بہتر پوزیشن دلا سکے گی اور سب سے بڑھ کر یہ تاثر ختم ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کے خلاف ہے۔پورے پاکستان میں پیغام جائے گا کہ اداروں اور ن لیگ میں صلح ہو چکی ہے جسکا آئندہ انتخابات میں انکے لیے مثبت اثر ہو گا۔کئی زعما کا خیال تھا کہ بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی بھی تو صوبائی حکومت کر رہی ہے جب حکومت اپنی ہوگی تو پھر کون پیروی کرے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ باتیں میاں شہباز شریف کے گوش گزار کی جائیں تاکہ وہ میاں نواز شریف کو اس ممکنہ سیاسی اتحاد کے فضائل سے آگاہ کریں تاکہ پوری جماعت استفادہ کر سکے۔
حمزہ شہباز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس مرحلے پر پارٹٰی کومشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی کی خواہش کو دل میں دبانے کے لیے تیار ہیں۔بعض ن لیگی رہنماوں کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ حمزہ بطور وزیراعلی مریم نواز کو قبول نہیں ہوں گے۔دوسری طرف پیپلز پارٹٰی کی ترجیح بھی پرویز الہیٰ ہی ہوں گے کیونکہ وہ ماضی میں ان کیساتھ کام کر چکے ہیں اور زرداری صاحب کے معاملات چوہدری صاحب سے درست ہیں۔
اس ساری کہانی میں اہم کردار جہانگیر ترین گروپ کا ہو گا۔ابھی تک ترین صاحب خاموش ہیں وہ سٹیٹس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ درپردہ وہ پی ٹی آئی میں اپنے حمایتی گروپ میں اضافہ چاہتے ہیں۔ترین صاحب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وہ ن لیگ اورپیپلز پارٹی سے اتحاد کرینگے تو وزارت اعلیٰ انکے گروپ سے ہوگا۔اپنے اس مطالبے کی حمایت میں وہ پیپلز پارٹی اور اور چھٹہ لیگ کے درمیان اتحاد کی مثال دے سکتے ہیں جب پہلے میاں منظور وٹو اور پھر سردارعارف نکئی بہت کم ممبران کی حمایت کے باوجود پنجاب کے وزرائے اعلیٰ رہے۔
بے رحم سیاست کی اس داستان میں پاکستان کے غریب لیکن غیورعوام کا نہ کوئی ذکرہے اور نہ گا جب تک خود جمہور اس بات کا فیصلہ نہ کرے کہ مستقبل میں اقتدار کے یہ پجاری ان کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔
لنک
https://bit.ly/3xP59z0

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں