قصہ ایک انٹرویو کا ۔۔۔ 11 799

قصہ ایک انٹرویو کا ۔۔۔

نہال سنگھ سے میری دوستی برسوں پرانی ہے۔ کپڑے کی ایک چھوٹی سی دکان کا مالک ہے۔ کبھی کاروباری مندی کی شکایت نہیں کرتا۔ ہر وقت ہنستا مسکراتا رہتا ہے لیکن تین چار دن پہلے مجھے ملنے آیا تو چہرے پر پریشانی تھی اور آنکھوں میں ایک اداسی جھلک رہی تھی۔ میں نے پوچھا نہال سنگھ کیا ہوا تو ہمارے ایک مشترکہ دوست جس کا تعلق بھی سیاست سے ہے کا ذکر کرنے لگا۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ اب اسکا کوی آتی پتا نہیں ۔ فون کریں تو کوئی جواب نہیں ملتا ۔ اس کا کیا بنا؟ نہال سنگھ کا یہ سوال مجھے کئی سال پیچھے لے گیا جب ھمارے اس مشترکہ دوست کو سپریم کورٹ نے حفاظت کے لیے پولیس کی نفری فراہم کرنے کی ہدایات دی تھیں۔ کیونکہ اپنے بے باک رویے اور عوامی خدمت کی دھن میں بڑے بڑے مگرمچھوں کو اپنے خلاف کر رکھا تھا۔ اسی عرصے میں اس پر ایک قاتلانہ حملہ بھی ہوا اور شدید زخمی ہونے کی وجہ سے سروسز ہسپتال لاہور میں کئی دن زیر علاج رہا۔

جب کورٹ نے پولیس فراہم کرنے کا کہا تو اس نے پولیس افسران سے اس بات پر ضد لگائی کہ میں انٹرویو کروں گا اور پھر اپنے لیے گارڈ چنوں گا۔ یار لوگوں نے سمجھایا کہ پولیس اہل کاروں سے کیا انٹرویو کرو گے وہ تربیت یافتہ ہیں اور اپنا کام پوری طرح جانتے ہیں۔پروفیشنل ھیں لیکن وہ بضد رھا اور پھر اس کے شدید اصرار پر چار اہل کاروں کو انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا۔ ایک سینئر پولیس افسر جو اس وقت پنجاب کے ایک ضلع میں ڈی پی او ہیں، بھی موجود تھے۔ ہمارے دوست نے انٹرویو کا آغاز کرتے ہوئے پہلا سوال کیا کہ کیا تمہیں گولی چلانا آتا ہے،اہل کار کا جواب تھا جی جناب پوری طرح آتا ہے ۔ نشانہ ٹھیک ہے، جواب تھا جی بالکل ٹھیک ہے۔ اگلا سوال تھا کیا میرے ساتھ وفادار رہو گے، جواب تھا جی بالکل وفادار رہوں گا۔ پھر پوچھا جو کہوں گاوہ کرو گے۔ اہل کارنے کہا جی سر جو آپ کہیں گے وہی کروں گا۔
یہاں تک تو بات قابل برداشت تھی، لیکن اگلے سوال نے سب کو دنگ کر دیا ہمارے دوست نے اہل کار سے کہا کہ یہ بندوق اٹھاؤ اور وہاں پر موجود سینئر پولیس اہل کار کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اسے گولی مار دو۔ ہم سب ہکا بکا رھ گئے، پولیس افسر کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا۔اہل کار کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح ردِ عمل دے ۔وہاں موجود ہمارے ایک اور ساتھی نے کہا کہ بھائی صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں تو ہمارے دوست کا جواب تھا ۔۔ اس اہل کار نے کہا ہے کہ وہ میرا وفادار رہے گا ، میری ہر بات پہ عمل کرے گا تو پھر جو میں نے کہا ہے وہ کیوں نہیں کرتا۔ مجھے یہ اہل کار اپنے ساتھ نہیں رکھنا۔مجھے سو فیصد وفادار اور سچے لوگ چاھیں۔۔ اس حیرانگی اور پریشانی کے عالم میں وہاں موجود تمام ساتھیوں کی بھرپور کوششوں اور بار بار سمجھانے کے بعد بالا آخر ہمارے دوست نے اپنے لیے سکیورٹی گارڈز کا تعین کر لیا۔ اور وہ اپنی وفاداری کے لیے کڑی شرائط کے پیمانے میں تھوڑی رعایت دینے کے لیے تیار ہو گیا۔ جو اھل کار سیکیورٹی فورسز نے بیجھے تھے انھیں میں سے چناؤ کر لیا گیا۔
ہمارا یہ دوست پولیس گارڈز کے ہمراہ سارے ملک میں گھومتا پھرتا رہا۔ اور پھر کئی جگہوں پر ایسے واقعات ہوئے جہاں اِن اہل کاروں کو ایسے کاموں کے لیے بھی استعمال کیا گیا جو غیر قانونی تھے۔ کئی دفعہ پتہ چلا ا کہ اسی سکیورٹی کی آڑ میں اس نے بعض سرکاری دفاتر میں لوگوں کو یرغمال بھی بنایا اور مرضی کے کام بھی کروائے۔ لیکن چند ماہ پہلے تو ایسا واقعہ ہوا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسکے اپنے گھر کے سامنے اس کی گاڑی سے ایک موٹر سائیکل سوار ٹکرا گیا۔ گاڑی کا تھوڑا نقصان ہوا لیکن اس نے نہ صرف اس شخص کو مارا بلکہ اپنی سکیورٹی سے کہا کہ موٹر سائیکل سوارکو گھر کے باہر قائم سکیورٹی کیبن میں بند کر دو۔ پولیس والوں نے جب کہا کہ یہ غیر قانونی ہے وہ ایسا نہیں کر سکتے تو وو شدید طیش میں آگیا اور اُن پر حملہ آور ہو گیا۔ اس نے پولیس کنٹرول روم فون کر کے مزید نفری طلب کی اور الزام لگایا کہ اس پر اسی کے سکیورٹی گارڈز نے حملہ کر دیا ہے۔
جب ایک سینئر پولیس افسر معاملے کی تحقیق کے لیے آیا تو ہمارے دوست نے مطالبہ کیا کہ اِن اہل کاروں کو گرفتار کیا جائے۔ اس سینئر پولیس افسر نے ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد گرفتاری سے اجتناب کیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی تو ہمارے دوست نے اس پولیس افسر کو چکما دے کر اسے اپنے گھر کے اندر بلایا اور گن پوائنٹ پر یرغمال بنا لیا۔ صرف یہی نہیں کئی درجنوں گولیاں اس کے ارد گرد چلائیںاسے بری طرح خوفزدہ کیا۔۔ کئی گھنٹے تک یہ ڈرامہ چلتا رہا۔خوش قسمتی سے فائرنگ کے دوران ایک گولی پھنس گی تو یہ پولیس افسر وھاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ھو گیا۔۔۔ بعد میں ہمارے دوست کو گرفتار کیا گیا۔ لیکن حوالات میں اسکے روییے کو دیکھ کر اندازہ ھو کی کجھ سال پہلے عوامی محبت کے جذبے سے سر شار ھمارا یہ دوست اب اپنے آپ میں ایک بہت بڑا ڈکٹیٹر بن چکا تھا۔ حوالات میں اس کی زبان سے جو کچھ نکل رھا تھا سننے والے بتاتے ہیں کہ وہ قابل بیان نہیں۔ عدالت میں پیشی کے وقت بھی وہ اپنے آپ کو اعلیٰ اور برتر کہہ رہا تھا اسکے خیال میں اسکی دیانت ۔۔ایمان داری اور جزبہ انسانیت سے کوی برابری نہیں کر سکتا۔سب اس بات پر متفق تھے کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں، پاگل ہو گیا ہے۔ جو سکیورٹی اس کی حفاظت کے لیے تھی اسے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے زرخرید غلاموں کی طرح ٹریٹ کر رہا تھا ۔

میں اپنی سوچوں میں اِتنا ڈوب چکا تھا کہ یہ احساس ہی نہ رہا کہ نہال سنگھ میرے پاس بیٹھا ہے۔ جب میں ہوش کی دنیا میں واپس آیا تو وہ میرا ھاتھ ھلا کر پوچھ رھا تھا کی ھمارے اس دوست کا کیا بنے گا۔اسکا انجام کیا ھو گا۔۔اور اس نے یہ سب کیوں کیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جو کچھ بھی ہوااس سب سے بچا جا سکتا تھا۔اگر اس پہلے انٹرویو کے وقت اس کی گفتگو اور رویے کا درست انداز میں تجزیہ کر لیا گیا ہوتا۔ نجانے کب ہم بطور قوم صحیح وقت پر درست فیصلہ کرنے کی عادت اپنائیں گے۔ اب میرا یہ دوست گھر میں مقید ہے اور ڈاکٹر اس کا علاج کر رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ اسے جلد صحت یاب کرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں